بد گمانی بڑھتی رہی
میرے بیٹے کو یہ وہم ہو گیا ہے کہ مجھے اس کا خیال نہیں اور میں اس کی شکایتیں کرتی رہتی ہوں‘ اس کے والد سے بھی اور گھر پر آنے والے رشتے داروں سے بھی‘ وہ مجھے غلط سمجھتا ہے۔ میں اس کی بھلائی چاہتی ہوں اور وہ بدگمان ہو رہا ہے۔ کوئی سمجھانے والا بھی نہیں‘ سسرال میں سب میرے خلاف ہیں۔ بچے کو بھڑکاتے ہیں۔ ہم سب ساتھ ہی رہتے ہیں۔(شہلا عمر‘ لاہور)
مشورہ:۔ آپ نے بیٹے کی عمر نہیں لکھی‘ بچوں کی تربیت میں اس طرح کے کئی مشکل مرحلے آتے ہیں جب والدین ان کے ساتھ بھلائی کر رہے ہوں اور وہ برائی سمجھ رہے ہوتے ہیں۔ اپنی بات کو پر اثر بنانے کیلئے اسے محبت کا احساس دلا دینا چاہیے۔ آپ ماں ہیں خیال تو بہت رکھتی ہوں گی لیکن بچے اس محبت کا احساس نہیں کر پاتے۔ خاندان والوں کے سامنے اسے برا بھلا نہ کہیں اور نہ کسی سے شکایتیں کریں۔ اس طرح بچوں کی عزت نفس متاثر ہوتی ہے۔ والد سے علیحدگی میں بچے کے حوالے سے گفتگو کی جا سکتی ہے اور ضروری ہو تو بچے کو بھی شامل کر لیں۔ جو لوگ بچے کو آپ کےخلاف بھڑکاتے ہیں ان کی پروانہ کریں۔ وقت کے ساتھ حقائق سامنے آہی جاتے ہیں۔
انصاف تو کرنا ہوگا
در اصل میں نے دو شادیاں کی ہیں‘ بڑی بیوی کا بہت زیادہ خیال رکھا‘ یہ بات چھوٹی بیوی اور ان کے بچوں کو بری لگی‘ آج کل گھر میں کچھ مہمان آئے ہوئے ہیں‘ چھوٹی بیوی اور بیٹی میرے ساتھ اچھی طرح بات نہیں کرتیں۔ مہمانوں کے سامنے مجھے شرمندگی ہوتی ہے۔ کاروباری مصروفیات بھی ہیں‘ عجیب پریشانی ہے۔ نہ گھر والوں کے بغیر رہا جاتا ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ رہنا ممکن نظر آرہا ہے۔ (علیم الدین ‘ سکھر)
مشورہ:۔ بیوی اور بچوں کے ساتھ انصاف سے کام لیں تاکہ کسی کو شکوہ نہ ہو‘ خاص طور پر بیٹی کے مسائل کو سمجھنے کی کوشش کریں‘ بیٹیوں کے دل بہت نازک ہو تے ہیں۔ بیٹے سے بھی تفصیل سے بات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس کی بدگمانی دور ہو سکے۔ آپ کو خود اس بات کا احساس ہے کہ آپ نے کس کا زیادہ خیال رکھا اور کس کا کم۔ تعلقات میں توازن رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ محرومیاں پیدا نہ ہوں۔ ایک بیوی اور بچوں کے معاملات کو دیکھنا اور تعلقات نبھانا کچھ آسان نہیں ہوتا۔ دو بیویوں اور بچوں میں انصاف کرنا تو زیادہ مشکل کام ہے لیکن بہر حال یہ بہت ضروری ہے۔
شمع شوق بجھ گئی
میری عمر 24 سال ہے۔ ابھی شادی نہیں ہوئی۔ ایک شادی شدہ شخص سے محبت کرنے لگی ہوں‘ جہاں میں پہلے جاب کرتی تھی وہ بھی وہیں تھے۔ انہوں نے خود مجھ سے شادی کا ذکر کیا‘ ان کے ہاں اولاد نہیں تھی۔ ان کی بہنیں میرے گھر رشتے کیلئے آئیں‘ پھر انہوں نے اپنی بہنوں کی شادی کی اور کہا کہ قرض اتر جانے دو‘ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ باہر چلا جاﺅں گا‘ پھر کچھ ہو سکے گا۔ میں یہاں رہتے ہوئے بیوی کو نہیں چھوڑ سکتا۔ اب کہتے ہیں کہ میں ان کی ذمہ داری نہیں ہوں‘ پہلے کہتے تھے کہ تم میری ذمہ داری ہو۔ محبت تو وہ کرتے ہیں اور میں بھی مگر معاملات آگے نہیں بڑھتے۔ اب ان کی اکثر اپنی بیوی سے بھی لڑائی ہوتی رہتی ہے۔ (ص ‘ حیدر آباد)
مشورہ:۔ ان کی اپنی بیوی سے لڑائی ہو یا نہ ہو اس سے آپ کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اچھا ہوا جو انہوں نے شادی سے پہلے ہی بے رخی اختیار کر لی ورنہ بعد میں تو آپ کیلئے حالات اور زیادہ مشکل ہو جاتے۔ ان سے ملنا چھوڑنے کے ساتھ ان کا خیال بھی ذہن میں نہ لائیں۔ کبھی تکلیف دہ فیصلے انسان کے اپنے حق میں بہتر ہوتے ہیں لیکن اس کا اندازہ وقت گزرنے کے بعد ہوتا ہے۔
بڑھتے ہوئے شبہات
میرے والد کی عمر ساٹھ سال ہے‘ ہر ایک کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں‘ دو ماہ پہلے ملازمت بھی ختم ہو گئی اب تو اور زیادہ تلخ مزاج ہو گئے۔ گھر میں رشتے داروں کا آنا جانا پسند نہیں کرتے۔ کہتے ہیں آنے والوں سے زیادہ بات نہ کرو‘ خود ہی چلے جائیں گے۔ سب کی توجہ چاہتے ہیں‘ خاص طور پر والدہ کو تو اپنے پاس سے اٹھنے نہیں دیتے۔ وہ کسی سے فون پر بات نہیں کر سکتیں۔ سمجھتے ہیں کہ ان کی برائیاں کر رہی ہیں‘ دو بہنیں ہیں ان کے رشتے بھی نہیں ہو پا رہے۔ (محمد سمیع‘ گجرات)
مشورہ:۔ والد کے مزاج میں شک و شبہ بڑھ گیا ہے اور یہ ذہنی مرض کی علامت ہے۔ پہلے تو وہ ملازمت کی ذمہ داریوں کی انجام دہی میں مصروف ہوتے ہوں گے اس لئے ان کی تکلیف دہ عادتوں کا زیادہ احساس نہ ہو گا لیکن اب مستقل سامنا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آپ کی والدہ کب تک یہ برداشت کریں گی ‘ کوشش کریں ان کو سمجھانے سے صورتحال بہتر ہو جائے ورنہ دماغ کے ڈاکٹر کو بھی دکھایا جا سکتا ہے۔
کچھ خواہشوں کے داغ
مجھے اپنے مقدر کی خوشی نہیں مل سکی‘ جن سے منگنی ہوئی وہ ملک سے باہر چلے گئے۔ گھر والوں نے ان کا انتظار نہ کیا۔ میری بھی بات نہ مانی اور ایک معمولی سا رشتہ قبول کر لیا۔ آج جب کہ میری شادی کو دس سال ہو گئے ہیں وہ لڑکا ملک واپس آ گیا ہے۔ میں نے اپنی زندگی پر صبر کر لیا تھااور اب اس کے آنے سے پرانی خواہشوں کے زخم تازہ ہو گئے ہیں۔ اس کیلئے اچھے اچھے رشتے ہیں‘ میں حیران ہوں کہ اسے میرا خیال تک نہیں‘ وہ ملا تو توجہ سے میری طرف دیکھا تک نہیں۔ میں تو اپنے بچوں اور شوہر کو چھوڑ کر اس سے ملنے گئی اور وہ ضروری کام کا کہہ کر گھر سے چلا گیا۔ (شبانہ‘ کراچی)
مشورہ:۔ یہ تو اپنے اپنے محسوس کرنے کی بات ہے ورنہ ہر شخص کو اس کے مقدر کی خوشی ملتی ہے۔ آپ چاہیں تو پرانی باتوں کو پھر سے ذہن میں تازہ کر کے خود کو تکلیف پہنچا لیں اور چاہیں تو اپنی زندگی کے موجودہ لمحات کو خوشیوں سے بھر لیں۔ جس طرح لڑکے کو آپ کا خیال نہیں اسی طرح آپ کو بھی اس سے ملنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ آپ کی اپنی زندگی مکمل ہے۔ اچھا ہوا جو گھر والوں نے انتظار نہیں کیا ورنہ اب آپ کی شادی کا مسئلہ ہو سکتا تھا اور پھر وہ بھی عدم توجہی کا مظاہرہ کرتا تو آج سے کہیں زیادہ دکھ ہوتا۔ پرانی خواہشوں کے داغ وقت کے ساتھ مٹ جانے اچھے ہوتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں